اتوار، 8 نومبر، 2015

بوجھ سے رہائی

میں تقریباً چھ مہینے پہلے اپنے بڑے بچوں کے زور دینے پر نارانون آئی کیونکہ وہ میری صحت اور بہبود کے حوالے سے فکر مند تھے۔ انہوں نے میری ضرورت کو بھانپ لیا تھا کہ مجھے اپنے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت یقیناً ان کی رائے سے متفق نہ تھی۔ آخر میں گزشتہ سولہ سالوں سے کاروبار ٹھیک سے سنبھال نہیں رہی تھی اور کیا میں نشئی کی طرف سے کیے جانے والے نقصانات کو قابو نہیں کررہی تھی؟

کیا میں نے کبھی غلطی کی؟ میرے سب سے بڑے بیٹے نے کہا کہ اگر میں فون کرکے منشیات سے متعلق کسی گروپ کا پتا کروں گی تو وہ میرے ساتھ میٹنگ میں جائے گا۔ اس طرح میں نارانون گروپ میں شامل ہوگئی۔

یہ میری زندگی کا سب سے عقلمندانہ فیصلہ تھا۔ اپنی پہلی میٹنگ میں جانے کے بعد اور دوسروں کی کہانیاں سُننے کے بعد مجھے فوراً ہی احساس ہوگیا کہ میں اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ جو مجھ پر بیت رہی ہوتی ہے اس کو نارانون خاندان کے لوگ اس طرح سمجھتے ہیں جس طرح کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔

اس شام کا موضوع لاتعلقی اختیار کرنے کی اہمیت پر تھا جسے سُننے کی مجھے ضرورت تھی۔ نارانون خاندان کی بات سُننے کے بعد مجھے سمجھ آگیا کہ میرا اپنا خاندان مجھے کیا بتانا چاہ رہا تھا۔

مجھے بھی بحالی کی اتنی اشد ضرورت تھی جتنی میرے ادھیڑ عمر بیٹے کو تھی۔ میں پہلی میٹنگ سے بہت سکون اور ذمہ داری سے آزادی کے احساس کے ساتھ اٹھ کر آئی۔ میں اپنے آپ کو بوجھ سے آزاد کرنے کی اجازت کے ساتھ اس میٹنگ سے باہر آئی۔

آج کی سوچ:

میں یہ تنہا نہیں کر سکتی۔ مجھے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ صرف آج کیلئے میں یہ مدد تلاش کروں گی؛ میں اپنے پروگرام پر عمل کروں گی اور وہ بوجھ جو میرے اُٹھانے کا نہیں ہے اُسے اُتار پھینکوں گی۔


’’جو بھی مطمئن اور پاک ہونا چاہے گا اُسے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے ۔ لاتعلقی اختیار کرنے کی۔‘‘ مائسٹر ایکہارٹ

ہفتہ، 7 نومبر، 2015

سکون پانا

مجھے ابھی نارانون آتے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ مجھے اتنا شدید غصہ آتا کہ میرا دل چاہتا کہ میں اٹھ کر چیخیں مارتے ہوئے میز کو پکڑ کر اُلٹ دوں۔ میں محسوس کرتی کہ میں غصے میں قابو سے باہر ہو جاتی ہوں۔ میں کتنے خوفناک اندھیرے میں اُتر چکی تھی، نجانے کیوں؟ کیونکہ ایک بیمار شخص وہ سب کچھ کر رہا ہے جسے میں ٹھیک نہیں سمجھتی۔ یہ غصہ اور اندھیرا مجھے تباہ کر رہے تھے۔

نارانون میٹنگز میں آنے سے مجھے یہ قبول کرنے میں آسانی ہوئی کہ میرا اپنی نشئی بیٹی کی زندگی پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ چاہے اس سے بات کرتے اور اسے دھمکیاں دیتے دیتے میں ہلکان ہو جاؤں مگر یقیناً اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تاہم یہ مجھ پر ضرور اثر انداز ہوا۔ جب بھی میں اُسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی میں پاگل ہو جاتی۔

میں نہیں چاہتی تھی کہ میری زندگی ہمیشہ کیلئے اندھیرے میں ڈوبی رہے۔ میں بھی روشنی چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ غم ہمیشہ کیلئے دور چلا جائے، مگر میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ ایسا روحانی ترقی کے ساتھ ہی ہو گا۔ نارانون میٹنگز اور میری بالاتر طاقت کی مدد مجھے سکھاتے ہیں کہ مجھے اپنی زندگی میں روشنی کیسے واپس لانی ہے۔ جب میں خود کو بہتر کرنے پر توجہ دیتی ہوں تو صحیح معنوں میں سکون محسوس کرنا ممکن ہے۔

آج کی سوچ:

نارانون میٹنگز کے ذریعے اور بالاتر طاقت کی مدد سے میں نے پایا کہ خود کو تبدیل کرنا ممکن ہے۔ یہ میرے لیے موقع ہے کہ میں اپنی زندگی میں موجود نعمتوں کا شکر ادا کروں اور بحالی کے سفر کو جاری رکھتے ہوئے اطمینان اور سکون کو پاؤں۔


’’اگر چیزیں غلط ہو رہی ہوں تو تم ان کے ساتھ مت چلو۔‘‘ ~ راجر بابسن

جمعہ، 6 نومبر، 2015

حقیقت

نارانون پروگرام پر عمل کا ایک حصہ اپنے آپ سے نمٹنا اور اس بات کو سمجھنا ہے کہ میں زندگی کو کیسے دیکھتی ہوں۔ یہ سوچ کہ ’’میں کوئی اختیار نہیں رکھتی‘‘ مجھے یاد دلاتی ہے کہ نشئی سے پرانے طریقوں سے نمٹنے کی بجائے مجھے اپنی صورتحال کو مختلف انداز میں دیکھنا ہو گا۔

نارانون میٹنگز میں آنا شروع کرنےسے پہلے میں یہ غلط تاثر رکھتی تھی کہ میں اپنی نشئی عزیزہ کو کنٹرول کر سکتی ہوں۔ اب میں جانتی ہوں کہ میں اپنے خیال میں نشئی پر جو بھی اختیار رکھتی تھی وہ کافی عرصے سے ختم ہو چکا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے سکون کی وجہ نشئی کو بحالی مدد لینے پر مجبور کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھ بوجھ ہو گی کہ امن تب ہی آئے گا جب میں کسی بھی صورتحال پر اپنے ردعمل میں تبدیلی لاؤں گی۔

گزشتہ روز نشے کی مریضہ ہمارے گھر صبح سات بجے آئی۔ جب میں باہر گئی تو میں نے کچھ ایسا دیکھا جو میں نشے کی بیماری اپنے گھر آنے سے لے کر آج تک نہیں دیکھ پائی تھی۔ میں نے جسے دیکھا وہ میری بیٹی نہیں تھی بلکہ ایک تھکی ماندی ستائیس سالہ عورت تھی۔

اُس لمحے میرا اسے دیکھنے کا نظریہ اس تصور سے مختلف تھا جو اس کے نشہ کرنے سے پہلے میرے دماغ میں تھا۔ اس لمحے سے پہلے تک جب بھی میں اپنی بیٹی کے بارے میں سوچتی تو میرے ذہن میں ایک پیاری سی نوجوان لڑکی کا خاکہ ابھرتا جو میری زندگی کی روشنی تھی۔ اس کی اس نئی تصویر نے مجھے چونکا دیا۔

میرا خیال ہے کہ یہ نشے سے ہونے والی ابتدائی تکلیف کا حصہ ہے؛ میں اپنی پیاری نشئی عزیز کو اس طرح دیکھتی تھی جیسے وہ پہلے ایک محبت کرنے والی انسان ہوا کرتی تھی۔ میں اس تصور کو چھوڑنے سے انکار کر رہی تھی۔

 میں اتنی شدت سے اسے اپنی زندگی میں واپس پانا چاہتی ہوں کہ میں حقیقی صورتحال نہیں دیکھ پا رہی۔ میں اتنی شدت سے اپنی نارمل زندگی کو واپس چاہتی ہوں کہ میں اسے حاصل کرنے کے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ کئی بار میں نے سوچا کہ کاش میں جاگوں تو یہ خوفناک خواب ختم ہو چکا ہو۔

آج کی سوچ:

نارانون نے مجھے یہ احساس دلانے میں مدد کی کہ چونکہ میں دوسروں پر کوئی اختیار نہیں رکھتی تو مجھے اپنی زندگی کی بدلی ہوئی حقیقت کو دیکھنا ہوگا اور اس کے مطابق اپنی زندگی ترتیب دینا ہو گی۔


’’زندگی وہ ہے جو تمہارے ساتھ واقع ہو رہی ہوتی ہے جب تم دوسری چیزوں میں مصروف ہوتے ہو۔‘‘ ~ جان لینن

جمعرات، 5 نومبر، 2015

سوچیں


نارانون میٹنگز میں جانے سے پہلے نشے کی لت نے میری ساری زندگی ضائع کر دی تھی۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والے نہ دور ہونے والے ایک بُرے خواب کی طرح تھا، جو مجھے رات کو آرام سے سونے نہیں دیتا تھا۔

میرا وزن کم ہوگیا کیونکہ میرے پیٹ میں ہر وقت گانٹھیں سی بنی رہتیں۔ میں نے اپنا دھیان نہیں رکھا۔ میری آمدن کم ہو گئی اور میں افسردہ اور مردہ دل سی ہو گئی۔ مجھے یہ ماننا ہوگا کہ میں نے نشے کی لت کو اپنے خاندان اور خود کو تباہ کرنے کی اجازت دی۔

اب میں نے نارانون کے ذریعے سیکھا ہے کہ میں اپنی زندگی کا کنٹرول واپس لے سکتی ہوں۔ میں سیکھ رہی ہوں کہ اگر میں نشئی کے اعمال کی وجہ سے بیمار رہوں گی تو میں اپنا اختیار کھو دوں گی۔ میں سیکھ رہی ہوں کہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں نشئی کو تنہا چھوڑ رہی ہوں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں خود کو مضبوط بنا رہی ہوں۔ میں نشئی کو پیار سے رہائی دے رہی ہوں۔

میں نے جانا کہ ابھی مجھے کافی کچھ سیکھنا ہے اور یہ کہ میں نے ابھی سیکھنے کا سفر شروع کیا ہے۔ میں اس پروگرام اور اس کے اصولوں اور طریقوں کی مدد سے ان رکاوٹوں پر قابو پا سکتی ہوں جو زندگی میں میرے سامنے آئیں گی۔

میں نے یہ بھی جانا کہ پہلا قدم ۔۔۔ یہ قبول کرنا کہ میں اس بیماری اور دوسروں کے سامنے بے بس ہوں ۔۔۔ مجھے خود پر اختیار دیتا ہے۔

آج کی سوچ:
اس بیماری میں کوئی مظلوم نہیں صرف سوائے اپنی مرضی سے مظلوم بننے والوں کے۔


’’چاہے تم یہ سوچو کہ تم یہ کرسکتے ہو یا یہ سوچو کہ تم یہ نہیں کرسکتے، تم درست ہو۔‘‘ ~ ہنری فورڈ

بدھ، 4 نومبر، 2015

سکون ہی میرا انعام ہے

میں اپنی دعاؤں اور مراقبے کے دوران اپنی سوچوں کی توجہ بالاتر طاقت پر مرکوز رکھنے کی کوشش کرتی ہوں اور خاموشی سے رہنمائی کا انتظار کرتی ہوں۔ میں صرف اپنی بالاتر طاقت کی رضامندی جاننے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت کی دعا مانگتی ہوں۔ اس ایمان کے ساتھ کہ مجھے بہترین راستہ دکھایا جائے گا۔

میں نے نارانون میں سیکھا کہ میری بالاتر طاقت میری ذہنی صحتیابی کو بحال کر سکتی ہے اسی لئے میں ہر روز آدھا گھنٹا دعا اور مراقبے کیلئے وقف کرتی ہوں۔ جب میری زندگی میں ڈرامہ اور بے ترتیبی پھیلی ہو تو میں مزید آدھا گھنٹہ خود کو دیتی ہوں۔

بہت سارے نشئی بدنظمی اور ڈرامہ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ دعا اورمراقبے کے طریقے ہمیں مسائل کی وجہ یعنی نشے کی بیماری سے توجہ ہٹانے میں مدد دیتے ہیں۔ مجھے اس بدنظمی اور ڈرامے کو اپنے ذہن کو گدلا کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت نہیں۔ دعاؤں اور مراقبے کے ذریعے میں ابھی بھی رُک سکتی، سُن سکتی اور گمراہ ہونے سے بچ سکتی ہوں۔

اپنے سکون اوراطمینان کو برقرار رکھنے کیلئے گیارہویں قدم پرعمل کرنا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ یہ مجھے اپنی مرضی کو بالاتر طاقت کی حولے کرنے اور اس کی طرف سے سمت کو قبول کرنا یاد دلاتا ہے۔

آج کی سوچ:

گیارہویں قدم کے ذریعے میں نے اپنی بالاتر طاقت کے ساتھ شعوری تعلق بنا لیا ہے۔ اپنی سوچوں کو پُرسکون رکھتے ہوئے میں اپنے راستے کو پُرامن طریقے سے سمجھنے کے قابل ہوں۔ اس کا انعام مجھے اکثر سکون کی صورت میں ملتا ہے۔


’’بالاتر طاقت تک پہنچنے کے ہزاروں راستے ہیں اورہم ان میں سے کوئی بھی ایک راستہ منتخب کرسکتے ہیں۔ شکر ہے کہ ہم نے کم از کم ایک راستہ منتخب کر لیا اور اپنی بحالی کے سفر کیلئے نکل پڑے۔‘‘ ~ Paths to Recovery )بحالی کے راستے(

منگل، 3 نومبر، 2015

زندگی جینا سیکھنا

بعض اوقات میں بغیر سوچے سمجھے کچھ ایسے کام کرتی تھی جن کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کیوں کرتی تھی۔ مثال کے طور پر کئی راتوں کو میں اپنے نشئی بیٹے کو سڑکوں پر ڈھونڈنے چلی جاتی یہ جانے بغیر کہ وہ مجھے کہاں ملے گا اور میں اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔

اس کے فیصلے میں کرتی کیونکہ میں سوچتی تھی کہ اس کے فیصلےغلط تھے۔ جیسے ہی وہ گھر آتا میں اس کی جیبوں کی تلاشی لیتی اور اس کے کپٹروں کو سونگھتی۔ میں اپنی کمر اور کندھوں میں خاصا تناؤ محسوس کرتی۔ اس رویے کی وجہ سے میں پستیوں میں جا گری اور واپس صحتمند زندگی کی طرف واپس آنا چاہتی تھی۔ نارانون یہی کرنے میں میری مدد کررہی ہے۔

اپنی زندگی میں نشئی موجود ہونے کا درد غالباً ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا لیکن نارانون کا پیغام مجھے یہ سیکھنے میں مدد کر رہا ہے کہ ہماری خوشی کسی دوسرے شخص کی خوشی پر منحصر نہیں ہوتی۔ یہی ہمارے پروگرام کی خوبصورتی ہے۔

میں نے ایک بار پھر نارانون کے بارہ اقدام کے پروگرام پر عمل کے ذریعے اپنی زندگی میں سکون کی تلاش کا سفر شروع کردیا ہے۔

میں ایک بار پھر ہنسنے کے قابل ہو گئی ہوں حالانکہ نشئی ابھی بھی منشیات استعمال کر رہا ہے اور سڑکوں پر ہے۔ اب میں پراُمید ہوں اور اس دن کا انتظار کرنے کے قابل ہوگئی ہوں جب وہ بحالی کے پروگرام کے لئے تیار ہوجائے گا۔

میں اس قابل ہوں کہ اُداسی کو اپنے اوپر حاوی ہونے سے روک دوں۔ اگرچہ میں اپنے بیٹے اور اس کی خوبصورت مسکراہٹ اور ہنسی کی کمی محسوس کرتی ہوں مگر مجھے سمجھ آئی ہے کہ اس کی منشیات کی لت پر توجہ دینا میرے لئے اچھا نہیں۔

میں نے جانا کہ زندگی کو آج کے آج جینا ہی زخم بھرنے کا واحد راستہ ہے۔ زندہ رہنے کیلئے مجھے اپنی مرضی اور زندگی کو بالاتر طاقت کے حوالے کرنا ہوگا۔

آج کی سوچ:

بحالی ایک روحانی سفر ہے۔ میں اعتماد کرنا سیکھ رہی ہوں کہ میری بالاتر طاقت میری اور نشئی کی دیکھ بھال کرنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ یہ اعتماد مجھے سکون دیتا ہے۔


’’ایسے مایوس لوگوں کے زخم کبھی نہیں بھرتے جو دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو کھنگالتے رہتے ہیں۔‘‘ ~ ٹی ڈی  جیکس

پیر، 2 نومبر، 2015

شعوری تعلق

ایک دن میں اور میرے شوہر پہاڑوں میں واقع اپنے گھر گئے ۔ ہم نے اشد ضروری ایک ہفتے کی چھٹی شروع کی۔ میں دوسری ریاست میں رہنے والے اپنے نشئی بیٹے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی۔ یہ نہ جاننا کہ وہ کیسا ہے اور کیا کر رہا ہے کبھی کبھی میری برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔
ہمارے گھر کے باہر ایک جھونپڑی ہے جس پر میں نے ایک تختی لگا رکھی ہے جس پر لکھا ہے ’’پُرسکون جگہ‘‘۔ میں اپنے ساتھ بارہ اقدام کے پروگرام کا لٹریچر لے گئی اور دروازہ بند کر لیا۔ میں نے چرچ کی موسیقی کی آوازیں سُنیں جو کچھ میلوں کے فاصلے پر پہاڑی کی اُترائی پر لگے چرچ کیمپ سے آ رہی تھیں۔ تب میں ہلکی سی ٹپ ٹِپ آواز سنی جس نے میرے تجسس کو اُبھارا۔ میں نے دیکھنے کیلئے دروازہ کھولا کہ یہ کیا ہے۔ میں نے غور کیا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی ہے۔
جب میں بارش کے قطروں کو پتوں کو بھگوتے ہوئے دیکھ رہی تھی تو میں نے کچھ فاصلے پر خشک ٹہنیوں اور پتوں کی چڑچڑاہٹ کو سُنا۔ ایک ہرن ماں چل کر میرے سامنے آ گئی۔ ایک منٹ کے لئے ہم ساکت ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔
وہ آگے بڑھی اور میرے قریب سے اپنے ننھے بچے کے ساتھ جو اس کے پیچھے تھا گزر گئی۔ جب وہ آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے میری نظروں کے سامنے سے ہٹے تو مجھے لگا میری بالاتر طاقت مجھے بتا رہی ہے کہ ہماری نگرانی کی جا رہی ہے اور میں چھوڑ سکتی ہوں، خدا کو کرنے دے سکتی ہوں اور اپنی چھٹیوں سے لُطف اندوز ہو سکتی ہوں۔
آج کی سوچ:
میں یاد رکھوں گی کہ یہ طاقت، جو مجھ سے زیادہ طاقتور ہے مجھ تک پہنچنے کے کئی راستے جانتی ہے۔ میں اکثر ہی روزمرہ کے واقعات میں شعوری تعلق کو پاتی ہوں۔ میں اپنا ذہن کھُلا رکھوں گی اور اپنے راستے میں آنے والے پیغامات کو وصول کرنے کیلئے رضامند رہوں گی۔

’’سب چیزوں کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ وہ ہیں۔‘‘ ~ دی وائس